انگلینڈ کی تاریخی کامیابی، بھارت کے خلاف سیریز برابر کر دی

0 788

انگلینڈ کو گویا "اب تو عادت سی ہے" ہدف کا تعاقب کرنے کی۔ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن نیوزی لینڈ کو کلین سوئپ کرنے کے بعد بھارت کے خلاف کہیں زیادہ بڑا اور مشکل ہدف ایسے حاصل کر لیا، جیسے کچھ تھا ہی نہیں۔

ایجبسٹن، برمنگھم میں کھیلا گیا یہ ٹیسٹ گزشتہ سال ہونے والی پانچ میچز کی سیریز کا باقی ماندہ آخری مقابلہ تھا۔ ٹاس انگلینڈ نے جیتا اور ایک مرتبہ پھر فیصلہ کیا کہ وہ ہدف کا تعاقب ہی کرے گا، گویا یہ انگلینڈ کی specialty بن گئی ہے۔ لیکن اس مرتبہ تو کمال ہی ہو گیا، اپنی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف 378 حاصل کر لیا، جو روٹ اور جونی بیئرسٹو کی 269 رنز کی ناقابلِ شکست پارٹنرشپ کی بدولت۔ پانچویں دن انگلینڈ نے یہ ہدف صرف تین وکٹوں کے نقصان پر ہی پا لیا اور یوں سات وکٹوں کی نمایاں کامیابی کے ساتھ سیریز ‏2-2 سے برابر کر دی۔  لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ اس مقابلے میں کئی نشیب و فراز آئے۔ کبھی بھارت غالب آ جاتا تو کبھی انگلینڈ میچ پر چھا جاتا۔

بھارت کا دورۂ انگلینڈ ‏2021-22ء - پانچواں ٹیسٹ

‏یکم تا 5 جولائی 2022ء

ایجبسٹن، برمنگھم، برطانیہ

انگلینڈ 7 وکٹوں سے جیت گیا

سیریز ‏2-2 سے برابر

بھارت (پہلی اننگز) 416
رشبھ پنت146111جیمز اینڈرسن5-6021.5
رویندر جدیجا104194میتھیو پوٹس2-10520
انگلینڈ (پہلی اننگز) 284
جونی بیئرسٹو106140محمد سراج4-6611.3
سیم بلنگز3657جسپریت بمراہ3-6819
بھارت (دوسری اننگز) 245
چیتشوَر پجارا66168بین اسٹوکس4-3311.5
رشبھ پنت5786میتھیو پوٹس2-5017
انگلینڈ (ہدف: 378 رنز) 378-3
جو روٹ142173جسپریت بمراہ2-7417
جونی بیئرسٹو114145محمد شمیع0-6415

انگلینڈ کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بھارت صرف 98 رنز پر پانچ کھلاڑیوں سے محروم ہو چکا تھا۔ یہاں پر وکٹ رشبھ پنت نے 111 گیندوں پر 146 رنز کی اننگز کھیلی۔ ان کے انداز میں بیئرسٹو کی جھلک نظر آتی تھی۔ پھر رویندر جدیجا نے بھی 104 رنز کے ساتھ اپنا بہترین کردار ادا کیا۔ جو کسر رہ گئی تھی، وہ آخر میں کپتان جسپریت بمراہ کی مختصر اور دھواں دار اننگز نے پوری کر دی۔ انہوں نے صرف 16 گیندوں پر 31 رنز بنائے۔ یہ بمراہ ہی تھے جن کو باؤلنگ کرواتے ہوئے اسٹورٹ براڈ کو ایک اوور میں ریکارڈ 35 رنز پڑے تھے۔

یوں بھارت لوئر مڈل آرڈر اور ٹیل اینڈرز کی مدد سے 416 رنز کے بڑے مجموعے تک پہنچ گیا۔ انگلینڈ کی جانب سے جیمز اینڈرسن پانچ وکٹوں کے ساتھ سب سے نمایاں باؤلر رہے۔

جواب میں انگلینڈ کی پہلی اننگز خاصی مایوس کن رہی۔ اگر بیئرسٹو کی سنچری نکال دی جائے تو اس میں کچھ نہیں بچتا۔ صرف 83 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے بعد یہ بیئرسٹو تھے جنہوں نے 106 رنز بنائے۔ دوسرا کوئی کھلاڑی 36 رنز سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ ٹاپ 4 بلے بازوں میں سے تین کی اننگز تو دہرے ہندسے میں بھی داخل نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ محمد سراج کی چار وکٹوں کی وجہ سے انگلینڈ کی پہلی اننگز 284 رنز پر ہی تمام ہو گئی۔

پہلی اننگز میں 132 رنز کی برتری ملنے کے بعد بھارت مطمئن تھا، تجزیہ کار بھی سمجھ رہے تھے کہ "سیریز آوے ہی آوے" کیونکہ بھارت پہلے ہی سیریز میں ‏2-1 کی ناقابلِ شکست برتری رکھتا تھا۔ اُس کے لیے تو میچ ڈرا کرنا بھی کافی ہوتا۔ لیکن پکچر ابھی باقی تھی۔

بھارت کو میچ میں پہلا دھچکا تب پہنچا جب اُس کی دوسری اننگز 245 رنز پر ہی تمام ہو گئی۔ ویراٹ کوہلی کی ایک اور ناکامی کے ساتھ بھارت کی تین وکٹیں 75 رنز پر گریں۔

یہاں چیتشوَر پجارا اور رشبھ پنت نے اسکور کو 153 رنز تک پہنچا دیا۔ برتری 285 رنز تک جا چکی تھی اور 7 وکٹیں اب بھی باقی تھیں۔ یہیں پر "چی" پجارا کی 66 رنز کی اننگز تمام ہوئی اور پھر بھارت کا زوال شروع ہو گیا۔ اس کی آخری 7 وکٹیں اسکور میں صرف 92 رنز کا اضافہ کر پائیں۔ بلکہ 190 رنز کے بعد صرف 55 رنز کے اضافے سے اس کی چھ وکٹیں گریں۔ بھارت 245 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا اور انگلینڈ کو ہدف ملا 378 رنز کا۔

یہ ہدف بھارت کی توقعات سے کہیں کم تو تھا، لیکن پھر بھی بہت بڑا تھا۔ اتنا بڑا کہ انگلینڈ نے تاریخ میں کبھی اتنا بڑا ہدف حاصل نہیں کیا تھا اور بھارت کبھی اتنے بڑے ہدف کا دفاع کرنے میں ناکام نہیں ہوا تھا۔ یعنی تاریخ بھارت کے ساتھ ہی تھی۔ لیکن انگلینڈ تو میدان میں اترتا ہی تاریخ بدلنے کے لیے ہے۔

اوپنرز زیک کرالی اور ایلکس لیس نے 107 رنز کا بہترین آغاز فراہم کیا۔ کرالی 46 رنز پر آؤٹ ہوئے تو لمحہ بھر کے لیے انگلش اننگز لڑکھڑا گئی۔ اولی پوپ صفر پر ہی اپنی وکٹ دے گئے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ 56 رنز بنانے والے ایلکس لیس کے رن آؤٹ سے پوری ہو گئی۔ صرف دو رنز کے اضافے پر انگلینڈ کی تین وکٹیں گر گئیں جبکہ منزل ابھی بہت دُور تھی۔

یہاں پر جو روٹ اور جونی بیئرسٹو نے وہ کر دکھایا، جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ دونوں نے صرف 316 گیندوں پر  269 رنز کی شراکت داری کی یعنی ہدف تک پہنچ گئے، وہ بھی بغیر کسی مزید وکٹ کے نقصان کے۔ جو روٹ 173 گیندوں پر 142 اور جونی بیئرسٹو 145 گیندوں پر 114 رنز کے ساتھ میدان سے فاتحانہ لوٹے۔

بیئرسٹو کو دونوں اننگز میں سنچریوں پر میچ جبکہ جو روٹ کو سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔ انہوں نے 105 سے زیادہ کے اوسط کے ساتھ 737 رنز اسکور کیے۔ ویسے 142 رنز کی یہ اننگز اُن کے کیریئر کی 28 ویں سنچری تھی، یعنی وہ سنچریوں کے معاملے میں ویراٹ کوہلی سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

ویسے انگلینڈ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے پہلے اپنے 20 میں سے 14 ٹیسٹ میچز ہارا تھا۔ یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز کے دورے پر بھی شکست کھائی۔ لیکن لگتا ہے برینڈن میک کولم نے کوچ بننے کے بعد ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ جس طرح مسلسل چار میچز میں ہدف کا ناقابلِ یقین انداز میں تعاقب کیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ انگلینڈ محدود اوورز کی طرح ٹیسٹ میں بھی اپنا کھویا ہوا مقام جلد حاصل کر لے گا۔