کیا ٹی ٹوئنٹی لیگز انٹرنیشنل کرکٹ کو کھا جائیں گی؟

0 1,036

اولاد میں جو سب سے بڑا ہوتا ہے، اس کی اہمیت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ سب سے چھوٹا تو لاڈلا ہوتا ہے جبکہ درمیان میں پیدا ہونے والے کی پوری زندگی شکوے شکایتوں اور اپنی اہمیت جتانے میں ہی گزر جاتی ہے۔ دنیائے کرکٹ میں ون ڈے انٹرنیشنلز کا حال بھی اِس وقت کچھ ایسا ہی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی بات نہیں کرتے کہ وہ تو سوتیلی اولاد بنی ہوئی ہے۔

دہائیوں پہلے ایک روزہ کرکٹ نے اس کھیل کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ون ڈے کرکٹ سب کو پسند تھی، کھلاڑیوں کو بھی کہ انہیں میچ کے دوران ہی اپنی غلطی کی تلافی کا موقع مل جاتا تھا، ان شائقین کو بھی کہ جو ٹیسٹ کرکٹ کی سست روی سے خائف رہتے تھے اور سب سے بڑھ کر براڈکاسٹرز کو بھی کہ انہیں دن بھر اشتہارات پیش کرنے کا لائسنس مل جاتا تھا۔

لیکن 2007ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی ناکامی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ کرکٹ تاریخ میں فیصلہ کن موڑ تب آیا جب انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اس ورلڈ کپ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ابھرتی ہوئی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ورلڈ کپ کروانے کا فیصلہ لیا۔ اس انقلابی فیصلے نے نہ صرف ٹیسٹ بلکہ اب تو ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کی بقا کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

کیا ون ڈے انٹرنیشنلز کا خاتمہ قریب ہے؟

بین الاقوامی کرکٹ میں اِس وقت کئی کھلاڑی ایسے ہیں جو ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلتے، لیکن اب ایسے بھی سامنے آ رہے ہیں جو ون ڈے انٹرنیشنلز چھوڑ رہے ہیں اور خود کو صرف ٹی ٹوئنٹی تک محدود کر رہے ہیں۔ ان میں ایک بڑا نام انگلینڈ کے بین اسٹوکس کا ہے۔ جو روٹ کے استعفے کے بعد انہیں انگلینڈ کا نیا ٹیسٹ کپتان بنایا گیا، اور چند ہی ہفتوں بعد انہوں نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔

پھر نیوزی لینڈ کے اہم باؤلر ٹرینٹ بولٹ کا ایسا فیصلہ آیا جس نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 78 ٹیسٹ، 93 ون ڈے اور 44 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز کھیلنے والے فاسٹ باؤلر نے اچانک نیوزی لینڈ کرکٹ کے سینٹرل کانٹریکٹ سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ ایسا فیصلہ ہے، جس سے ان کا انٹرنیشنل کیریئر ختم بھی ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کِیا کیوں؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ 100 ٹیسٹ میچز اور اتنے ہی ون ڈے انٹرنیشنل میچز کا سنگِ میل عبور کر سکتے ہیں۔ بلکہ ہو سکتا ہے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کا خواب بھی پورا کر لیں، جو دو فائنلز میں پہنچ کر بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پایا تھا۔

تو آخر اس فیصلے کی وجہ کیا ہے؟ وہ ہے تین مزید بڑی کرکٹ لیگز کا سامنے آنا کہ جن کے آنے کے بعد اب سال کا شاید ہی کوئی مہینہ باقی بچا ہو، جس میں کوئی نہ کوئی ٹی ٹوئنٹی لیگ نہ کھیلی جا رہی ہو۔ ان میں پہلی ہے انگلینڈ میں جاری منفرد 'دی ہنڈریڈ'، دوسری جانب جنوبی افریقہ کی نئی ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے تو متحدہ عرب امارات کی انٹرنیشنل لیگ ٹی ٹوئنٹی کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ جس میں کھلاڑیوں کو پانچ لاکھ ڈالرز تک کی پیشکشیں کی جا رہی ہے، یعنی انڈین پریمیئر لیگ کے بعد سب سے زیادہ پیسہ۔ اب کھلاڑیوں کے پاس تمام طرز کی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کے لیے وقت ہی نہیں بچا۔

یہی وجہ ہے کہ کرکٹ آسٹریلیا نے ڈیوڈ وارنر کو صرف بگ بیش کھیلنے کے لیے راضی کرنے کی خاطر ایسی پیشکشیں کی گئی ہیں کہ وہ اماراتی لیگ کھیلنے نہ جائیں۔

اصل میں مجوزہ اماراتی لیگ ذرا منفرد ہے، کیونکہ اس میں ایک ٹیم میں 9 غیر ملکی کھلاڑیوں کو کھلانے کی اجازت ہے، یعنی اس میں کرائے کے سپاہیوں کی بڑی گنجائش ہوگی اور پیسہ تو ہے ہی۔

اور سب سے بڑی بات یہ کہ جنوبی افریقہ اور متحدہ عرب امارات کی ان لیگز میں سے بیشتر اُن بھارتی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہیں، جو انڈین پریمیئر لیگ میں بھی ٹیموں کے مالکان ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ وہ اپنی آئی پی ایل ٹیموں میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کو اِن لیگز میں بھی آزمائیں گے اور یوں دنیائے کرکٹ کے کئی اہم کھلاڑی کسی دوسری جگہ کھیلنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ حالیہ کچھ ہفتوں سے ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے حوالے سے بہت سی باتیں کی گئی ہیں۔ انگلینڈ کے آل راؤنڈر معین علی نے پچھلے ہفتے ہی کہا تھا کہ میری رائے میں اب ون ڈے کرکٹ کی جگہ بنتی نہیں۔ خدشہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں 50 اوورز کا فارمیٹ ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ طویل اور اُکتا دینے والا فارمیٹ بن چکا ہے۔

پھر انگلینڈ ہی کے سابق فاسٹ باؤلر ڈیرک پرنگل کہتے ہیں کہ 'دی ہنڈریڈ' کی وجہ سے انگلینڈ کی ٹیسٹ کرکٹ کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹورنامنٹ سمر سیزن کے عروج کے دنوں میں کھیلا جا رہا ہے، جس میں بہترین موسم ہوتا ہے اور بچوں کے اسکولوں کی بھی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ ہمیشہ انہی دنوں میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جاتی ہے، لیکن اب 'دی ہنڈریڈ' چل رہی ہے۔ جس نے انگلینڈ کی ٹیسٹ اور کاؤنٹی کرکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔

یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ انگلینڈ نے اگلے سال ایشیز کو اگست سے پہلے پہلے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا ہوا تو یہ 139 سال میں پہلا موقع ہوگا کہ اگست میں انگلینڈ میں کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ افواہیں بھی ہیں کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کاؤنٹی چیمپیئن شپ میں ہر کاؤنٹی کے میچز کو 14 سے گھٹا کر 10 سے 12 کرنا چاہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرنگل نے اسے انگلینڈ کے ٹیسٹ مستقبل کے لیے بھیانک قرار دیا ہے۔

بہرحال، ہم ون ڈے انٹرنیشنل فارمیٹ کی بات کر رہے تھے۔ ایک وقت تھا کہ ایک روزہ عالمی کپ جیتنے والا حقیقی ورلڈ چیمپیئن کہلاتا تھا، لیکن اب عالم یہ ہے کہ اس فارمیٹ کے خاتمے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ بھی شیڈول یہ بات ذہن میں رکھ کر بنائے جا رہے ہیں کہ وہ کسی بڑی لیگ سے متصادم تو نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے فیوچر ٹورز پروگرام تک میں انڈین پریمیئر لیگ کے لیے ہر سال ڈھائی مہینے رکھے گئے ہیں۔

حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم کے لیے تو کھلاڑیوں کا انتخاب مشکل ہو گیا ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے آندرے رسل نے ویسٹ انڈیز کے لیے آخری ٹی ٹوئنٹی کب کھیلا تھا؟ اور سنیل نرائن نے بھی، یہ دونوں کھلاڑی اس وقت بھی دی ہنڈریڈ میں کھیلتے نظر آ رہے ہیں، جبکہ ویسٹ انڈیز کا حال یہ ہے کہ وہ ہوم گراؤنڈ پر بھارت کے ہاتھوں ‏4-1 سے سیریز ہار چکا ہے اور نیوزی لینڈ کے خلاف بے حال ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ کوچ فل سیمنز کہتے ہیں کہ دنیا اب بدل چکی ہے، مواقع کہیں اور ہیں، اب کھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ ویسٹ انڈیز کا انتخاب کرتے ہیں یا نہیں۔ ہم کسی سے منّتیں نہیں کریں گے کہ ویسٹ انڈیز کے لیے کھیلو، اپنے ملک کے لیے کھیلو۔

کیا جلد ہی دوسرے ملکوں کا حال بھی ویسٹ انڈیز جیسا ہونے والا ہے؟ کیا بڑی ٹی ٹوئنٹی لیگز ٹیسٹ، ون ڈے بلکہ مجموعی طور پر انٹرنیشنل کرکٹ کو بھی کھا جائیں گی؟ بدقسمتی سے آثار کچھ ایسے ہی نظر آتے ہیں۔