آج کا دن جب پاکستان نے پہلی بار اوول فتح کیا

0 886

‏17 اگست کو پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔ یہی وہ دن ہے جب 1954ء میں پاکستان نے اوول کے میدان پر یادگار کامیابی حاصل کر کے انگلینڈ کے پہلے ہی دورے پر سیریز ‏1-1 سے برابر کر دی تھی۔ یہی وہ مقابلہ تھا جس کے ساتھ فضل محمود ایک لافانی کردار بن گئے۔

جب 12 اگست 1954ء کو شاہین اوول کے میدان میں اترے تھے تو سیریز ‏1-0 سے انگلینڈ کے حق میں تھی۔ میزبان نے ٹرینٹ برج، ناٹنگھم میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ اننگز اور 129 رنز کے بھاری مارجن سے جیتا تھا۔ باقی تمام میچز بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوئے یہاں تک کہ چوتھا اور آخری ٹیسٹ شروع ہو گیا۔ جہاں انگلینڈ کی کامیابی یقینی تھی۔ اس کے پاس لین ہٹن، ڈینس کومپٹن، پیٹر مے، فرینک ٹائی سن، جونی وارڈل اور پیٹر لوڈر جیسے کھلاڑی تھے۔ جبکہ پاکستان کا دستہ نو آموز کھلاڑیوں کا مشتمل تھا، لیکن اوول ٹیسٹ اور اس دورے نے انہیں وہ شہرت دی کہ مین آف دی میچ فضل محمود کو آج تک 'اوول کا ہیرو' کہا جاتا ہے۔ پھر حنیف محمد، امتیاز احمد، وزیر محمد اور کپتان عبد الحفیظ کاردار ہیں، جو آج بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

پاکستان کا دورۂ انگلینڈ 1954ء - چوتھا و آخری ٹیسٹ

‏12 تا 17 اگست 2021ء

دی اوول، لندن، انگلینڈ

پاکستان 24 رنز سے جیت گیا

سیریز ‏1-1 سے برابر

پاکستان (پہلی اننگز) 133
عبد الحفیظ کاردار36-فرینک ٹائسن4-3513.4
امتیاز احمد23-پیٹر لوڈر3-3518
انگلینڈ (پہلی اننگز)130
ڈینس کومپٹن53-فضل محمود6-5330
پیٹر مے26-محمود حسین4-5821.3
پاکستان (دوسری اننگز) 164
وزیر محمد42*-جونی وارڈل7-5635
ذوالفقار احمد34-جم میک کینن1-2014
انگلینڈ (ہدف: 168 رنز) 143
پیٹر مے53-فضل محمود6-4630
ڈینس کومپٹن29-شجاع الدین1-2510

پاکستان اس اہم ٹیسٹ کے پہلے دن ہی سخت دباؤ میں آ گیا۔ بارش اور پھر ابر آلود موسم کی وجہ سے انگلینڈ کو باؤلنگ میں خوب مدد ملی اور پاکستان صرف 133 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ ابتدائی سات وکٹیں تو صرف 51 رنز پر گر گئی تھیں، جس کے بعد کپتان کاردار نے آخری تین وکٹوں کے ساتھ مل کر اسکور کو یہاں تک پہنچایا۔

دوسرے دن کا پورا کھیل بارش کی نذر ہو گیا۔ تیسرے روز پاکستانی باؤلرز نے کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ فضل محمود کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے انگلینڈ کی بیٹنگ لائن ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ میزبان ویسے ہی ایلک بیڈسر اور ٹریور بیلی کی خدمات سے محروم تھا۔ یوں پاکستان کے ناتجربہ کار لیکن کوالٹی باؤلنگ اٹیک کے سامنے چاروں خانے چت ہو گیا۔

پاکستان کی عمدہ باؤلنگ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پہلی اننگز میں صرف 133 رنز بنانے کے باوجود پاکستان تین رنز کی برتری لینے میں کامیاب ہو گیا یعنی انگلینڈ کی پہلی اننگز 130 رنز پر ہی تمام ہو گئی۔ اس میں سے بھی 53 رنز ڈینس کومپٹن کے تھے۔

بہرحال، دوسری اننگز میں پاکستانی بیٹنگ لائن کو اپنی پہلی اننگز کی غلطیوں کے ازالے کا موقع ملا۔ لیکن ٹاپ آرڈر پھر دھوکا دے گیا۔ اگر وزیر محمد 42 اور اسپنر ذوالفقار احمد 34 رنز نہ بناتے تو پاکستان 164 رنز پر کبھی نہ پہنچ پاتا۔ یہ جونی وارڈل کی شاندار باؤلنگ تھی جو انگلینڈ کو میچ میں واپس لے آئی تھی۔ انہوں نے اننگز میں سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اب ایک مرتبہ پھر تمام تر انحصار پاکستان کی باؤلنگ پر تھا، جسے صرف 168 رنز کا دفاع کرنا تھا۔ انگلینڈ نے تعاقب کا آغاز کیا اور پیٹر مے کے 53 رنز کی بدولت صرف دو وکٹوں پر ہی 109 رنز پہنچ گیا۔ میچ تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ تب امید کی ایک کرن پیدا ہوئی، چوتھے دن کے آخری لمحات میں فضل محمود نے دو اور شجاع الدین نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کر کے مقابلے کو سنسنی خیز بنا دیا۔

‏17 اگست 1954ء کو میچ کے آخری دن انگلینڈ کو مزید 43 رنز کی ضرورت تھی، لیکن وکٹیں صرف چار بچی تھیں۔ پاکستان نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ان چاروں کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور محض 24 رنز سے کامیابی حاصل کر لی۔

فضل محمود نے میچ میں 99 رنز دے کر 12 وکٹیں حاصل کیں۔ پہلی اننگز میں 53 رنز دے کر چھ وکٹیں لینے کے بعد انہوں نے دوسری اننگز میں صرف 46 رنز دے کر چھ مزید کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

یہ تین سال بعد انگلینڈ کی پہلی شکست تھی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا مقابلہ کتنی مضبوط ٹیم سے تھا۔ اس لیے سیریز ‏1-1 سے برابر کرنا ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے، پھر یہ پاکستان کا پہلا دورۂ انگلینڈ تھا۔

اس کامیابی کے اثرات آنے والی کئی نسلوں میں منتقل ہوئے۔ فضل محمود نے فاسٹ باؤلنگ جو روایت شروع کی، وہ آج تک قائم و دائم ہے اور پاکستان کو تیز باؤلرز کے حوالے سے ایک زرخیز سرزمین سمجھا جاتا ہے۔