[آج کا دن] عمر اکمل، وہ کہ جسے کوہلی بننا تھا

0 1,002

آپ باؤلنگ میں باصلاحیت ہیں، بیٹنگ میں آپ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں یا پھر فیلڈنگ میں آپ 'جونٹی رہوڈز کا ساشے پیک' ہیں لیکن یہ سب صلاحیتیں بیکار ہیں اگر کھیل کے حوالے سے آپ کا نقطہ نگاہ درست نہیں، آج کی زبان میں بولیں تو attitude ۔ اس کی بہترین اور زندہ مثال ہیں عمر اکمل۔

‏1990ء میں آج ہی کے دن پیدا ہونے والے عمر اکمل کو دیکھ کر لگتا تھا پاکستانی شائقین کی وہ دعائیں قبول ہو گئی ہیں، جو وہ سالوں سے مانگ رہے تھے۔ دمبولا میں بنائی گئی فاتحانہ ون ڈے سنچری ہو یا ڈنیڈن ٹیسٹ میں اُس وقت ایک جاندار سنچری اننگز، جب 429 کے جواب میں پاکستان کے 85 رنز پر پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے، یہ تمام باریاں، ان میں کھیلا گیا ہر شاٹ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ "دیکھو مجھے!"

یہی وجہ ہے کہ ان میچز کے کمنٹیٹرز ہوں یا میدان سے باہر موجود تبصرہ کار و تجزیہ نگار، سب کہہ رہے تھے کہ عمر اکمل ویراٹ کوہلی کی طرح 'نیکسٹ بگ تھنگ' ہے۔

لیکن آج دیکھیں، ویراٹ کوہلی کہاں ہیں اور عمر اکمل کہاں؟

عمر اکمل اور ویراٹ کوہلی کے انٹرنیشنل کیریئر کا تقابل

فارمیٹمیچزرنزبہترین اننگزاوسطسنچریاںنصف سنچریاں
ٹیسٹ16100312935.8216
ون ڈے1213194102*34.34220
ٹی ٹوئنٹی8416909426.0008
فارمیٹمیچزرنزبہترین اننگزاوسطسنچریاںنصف سنچریاں
ٹیسٹ1018043254*49.952728
ون ڈے2601231118358.074364
ٹی ٹوئنٹی97329694*51.50030

کوہلی کا آن فیلڈ رویّہ چاہے جتنا بُرا لگے، لیکن ان کا آف فیلڈ رویّہ اور کھیل کے حوالے سے ان کا attitude ہمیشہ انہیں آگے بڑھاتا رہا جبکہ عمر اکمل نے ثابت کیا کہ شہرت ہضم کرنا بہت مشکل کام ہے۔

تنازع سے آغاز، تنازع پر اختتام

عمر اکمل نے اپنے 10 سالہ انٹرنیشنل کیا کچھ نہیں کِیا؟ بھائی بندی میں انجری کا ڈراما رچانے سے لے کر کوچز سے جھگڑوں بلکہ فکسنگ معاملات تک، غلط سمت میں اٹھتا ہوا ہر قدم اُن کے کیریئر کا خاتمہ کرتا چلا گیا۔

صلاحیت بہت، اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، لیکن اسے سنبھالنے کا ہنر نہیں۔ پھر یہاں چڑھانے والے بھی بہت کہ جن میں سے کسی نے 'پاکستان کرکٹ کا مستقبل' قرار دیا تو کچھ نے کپتانی کے خواب بھی دکھا دیے۔ نتیجتاً کیریئر کے جس دور میں سر جھکا کر چلنے کی ضرورت تھی، عمر کا دماغ آسمانوں پر اڑنے لگا اور بالآخر ٹھوکر کھائی۔

جس بلے باز نے صرف 19 سال کی عمر میں شین بونڈ اور ڈینیل ویٹوری کو دن میں تارے دکھا دیے تھے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ اُس کا ٹیسٹ کیریئر دو سال بھی نہیں چل پایا۔

کہاں ابتدائی پانچ ٹیسٹ میچز میں 55 سے زیادہ کا اوسط اور کہاں بتدریج زوال کہ بالآخر کُل 16 مقابلوں میں 36 سے بھی کم کا بیٹنگ ایوریج کے ساتھ ٹیسٹ اسکواڈ سے باہر ہو گئے، ہمیشہ کے لیے۔

اس کے مقابلے میں عمر اکمل ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی میں کافی عرصے تک 'اِن اینڈ آؤٹ' رہے۔ ان کا کیریئر121 ون ڈے اور 84 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ دونوں فارمیٹس میں وہ 35 کے معمولی اوسط تک بھی نہیں پہنچے۔

عمر اکمل جن تنازعات میں ملوث ہوئے، وہ معمولی نہیں تھے۔ ابھی انٹرنیشنل کیریئر کے آغاز کو سال بھی نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے 'بھائی بندی' میں خود کو پھنسوا لیا۔ یہ 2010ء کا بدنامِ زمانہ سڈنی ٹیسٹ تھا کہ جہاں بدترین کارکردگی کے بعد کامران اکمل کو ٹیم سے باہر کیا گیا تو عمر اکمل نے اپنے 'بھائی جان' سے اظہارِ یکجہتی میں زخمی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس حرکت پر کامران اکمل پر 30 لاکھ اور عمر اکمل پر 20 لاکھ روپے جرمانہ لگا اور یہیں سے ایک نئی داستان کا آغاز ہوا۔

کارکردگی میں واضح زوال آنے کے بعد عمر اکمل کے رویّے میں شدید اضطراب پیدا ہوا۔ وہ آف دی فیلڈ بھی عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگے۔ 2014ء میں غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ پر جرمانے سے لے کر 2016ء میں فیصل آباد کے ایک تھیٹر میں جھگڑے تک، لیکن یہ 2017ء میں جنید خان سے الجھنے کا واقعہ تھا، جس نے ان کے کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔

اُسی سال عمر اکمل نے ایک اور پنڈورا باکس کھولا اور دعویٰ کیا کہ کوچ مکی آرتھر نے انہیں گالیاں دی ہیں۔ نتیجہ ٹیم سے اخراج کی صورت میں تو نکلا ہی، لیکن 2020ء میں عمر اکمل پر سٹے بازوں کے رابطوں کے بعد انتظامیہ کو اطلاع نہ دینے کے جرم میں تین سال کی پابندی لگا دی گئی جو بعد ازاں کم تو کی گئی، لیکن عمر کے کیریئر پر کاری اور آخری ضرب لگ چکی تھی۔

بڑے مقابلوں کا چھوٹا کھلاڑی

عمر اکمل کی کارکردگی کو تو کبھی عروج ملا کبھی زوال، لیکن ان کا attitude ہمیشہ آسمان پر رہا۔ پھر پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں بڑے مقابلوں کی کارکردگی بہت اہمیت رکھتی ہے اور کئی کھلاڑیوں کا کیریئر ہی چند ایک بڑے میچز کی مرہونِ منت ہوتا ہے، وہاں ہر بڑے مقابلے میں عمر اکمل کچھ خاص نہیں کر پائے۔ ان کا پہلا بڑا مقابلہ تھا چیمپیئنز ٹرافی 2009ء میں بھارت کے خلاف مقابلہ، جہاں عمر اکمل صفر پر آؤٹ ہوئے۔ پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2010ء کا وہ سیمی فائنل ہے، جہاں مائیکل ہسی نے پاکستان سے جیتا ہوا مقابلہ چھین لیا تھا۔ عمر اکمل نے اس میچ میں 35 گیندوں پر 56 رنز کی اچھی اننگز کھیلی تھی، لیکن یہ فاتحانہ باری ثابت نہیں ہوئی۔

پھر ورلڈ کپ 2011ء کا سیمی فائنل ہے، جس کو سوچ کر آج بھی کئی دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ بھارت کے خلاف موہالی میں عمر اکمل صرف 29 رنز بنا کر اس وقت آؤٹ ہوئے جب پاکستان کو 17 اوورز میں 119 رنز کی ضرورت تھی اور ان کا کھڑا رہنا ناگزیر تھا۔ وہ عین اس وقت آؤٹ ہوئے جب پاکستان کو ان کی سخت ضرورت تھی

پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2012ء سری لنکا کے خلاف سیمی فائنل آتا ہے کہ جہاں پاکستان صرف 140 رنز کے تعاقب میں تھا۔ یہاں عمر اکمل نے 29 رنز بنائے اور دوسرے اینڈ سے پوری ٹیم آؤٹ ہوتا دیکھتے رہے۔

ورلڈ کپ 2015ء میں بھارت کے خلاف اہم مقابلے میں عمر نے صفر کی ہزیمت اٹھائی اور آسٹریلیا کے خلاف کوارٹر فائنل میں صرف 20 رنز بنائے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2016ء عمر اکمل کا آخری بڑا ٹورنامنٹ تھا کہ جس میں پاکستان کی کارکردگی اُن کی طرح بھیانک تھی۔ پاکستان چار میں سے صرف ایک میچ جیت پایا اور باقی سب میں شکست کھائی۔ بنگلہ دیش کے خلاف واحد کامیابی میں بھی عمر اکمل کا کردار صفر تھا، جی ہاں! صفر!

عمر کو چیمپیئنز ٹرافی 2017ء کے لیے منتخب تو کیا گیا لیکن فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی کی بنیاد پر باہر کر دیا گیا۔ یہی وہ ٹورنامنٹ تھا کہ جس میں پاکستان بھارت کے خلاف فائنل میں نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔

پاکستان سپر لیگ میں

عمر اکمل نے پاکستان سپر لیگ میں متعدد سیزن لاہور قلندرز کے لیے کھیلے لیکن پھر پابندی کی وجہ سے باہر ہو گئے۔ وہ عرصے بعد پی ایس ایل میں واپس آئے اور اس مرتبہ کوئٹہ نے ان کا انتخاب کیا البتہ 2022ء کے سیزن میں پانچ میچز میں انہوں نے بنائی ایک نصف سنچری اور مجموعی طور پر محض 101 رنز۔ یہ ایسی کارکردگی نہیں کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ عمر اگلے سیزن میں بھی نظر آئیں گے۔

یوں جسے ویراٹ کوہلی کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا تھا، تاریخ کے صفحات میں یاد بھی رکھا جائے گا تو اپنے تنازعات کی وجہ سے۔