[آج کا دن] 'زندہ و جاوید' میانداد

0 1,002

‏1976ء کے موسمِ خزاں میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تھی۔ پہلا ٹیسٹ لاہور میں کھیلا گیا، جہاں پاکستان کے کپتان مشتاق محمد نے ٹاس جیتا اور پہلے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب 44 رنز پر خود مشتاق محمد کی صورت میں تیسری وکٹ گر گئی تو لگ رہا تھا غلط فیصلہ کر لیا۔ مشتاق پویلین واپس آ رہے تھے اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والا ایک نوجوان پہلی بار میدان میں قدم رکھ رہا تھا، نام تھا جاوید میانداد!

صرف 55 رنز پر چار وکٹیں گرنے پر اسی نوجوان نے آصف اقبال کے ساتھ مل کر اسکور کو 336 رنز تک پہنچایا، یعنی دونوں نے 281 رنز کی شراکت داری کی۔ جاوید میانداد نے اپنی پہلی ٹیسٹ اننگز میں 163 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے، وہ بھی ایک ایسی اننگز میں جس میں ماجد خان 23 رنز سے آگے نہیں بڑھ پائے، صادق محمد اور مشتاق محمد دہرے ہندسے میں بھی داخل نہیں ہو سکے بلکہ وسیم راجا اور انتخاب عالم تو گولڈن ڈک کا شکار ہوئے۔ وہاں میانداد نے آصف اقبال کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایسی بنیاد فراہم کی کہ آخر میں فتح پاکستان ہی کے نصیب میں آئی۔

یہ محض نقطہ آغاز تھا۔ دوسرے ٹیسٹ کی واحد اننگز میں تو میانداد صرف 25 رنز بنا پائے لیکن تیسرا مقابلہ ان کے ہوم گراؤنڈ کراچی میں تھا۔ جہاں جاوید نے پہلی اننگز میں 206 رنز بنا ڈالے، تاریخ کے کم عمر ترین ڈبل سنچورین۔ اُس دن میانداد کی عمر صرف 19 سال اور 140 دن تھی۔ آج 46 سال بعد بھی یہ ریکارڈ جوں کا توں موجود ہے۔

اس کے بعد جاوید میانداد نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اپنے پہلے ٹیسٹ سے 1993ء میں لاہور ہی میں زمبابوے کے خلاف آخری ٹیسٹ تک، ٹیسٹ کرکٹ میں جاوید میانداد کا بیٹنگ ایوریج کبھی 50 سے نیچے نہیں آیا۔ ایسا کارنامہ جو تاریخ میں صرف دو بلے بازوں نے انجام دیا ہے۔

جاوید میانداد کا کرکٹ کیریئر

فارمیٹمیچزرنزبہترین اننگزاوسط10050
ٹیسٹ1248832280*52.572343
ون ڈے انٹرنیشنل2337381119*41.70850
فرسٹ کلاس4022866331153.3780139
لسٹ اے43913973152*42.6013101

یہ صرف ذاتی اعداد و شمار نہیں کہ جن کی بدولت میانداد 'زندہ و جاوید' ہیں، بلکہ پاکستان کرکٹ کو تاریخ کے چند یادگار ترین لمحات جاوید میانداد کی بدولت ملے۔ شارجہ کا وہ چھکا بھلا کوئی بھول سکتا ہے؟ یہ ورلڈ کپ 1992ء سے پہلے کا 'ورلڈ کپ لمحہ' تھا بلکہ آج بھی اسے ون ڈے انٹرنیشنل تاریخ کے یادگار ترین لمحات میں سے ایک کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ایک بہت اچھا باؤلر ہونے کے باوجود چیتن شرما کی شہرت "جاوید میانداد سے چھکا کھانے والے باؤلر" کی بن گئی۔

پھر یہ محض "ایک چھکا" نہیں تھا، بلکہ بھارت پر پاکستان کی نفسیاتی برتری کا بھی آغاز ثابت ہوا۔ پاکستان کو وہ اعتماد نصیب ہوا کہ اگلی کم از کم ایک دہائی تک بھارت کرکٹ میدانوں میں پاکستان کے سامنے سر نہیں اٹھا پایا۔

بہرحال، اس دوران جاوید میانداد آگے بڑھتے رہے اور ایک کے بعد دوسرا ریکارڈ اپنے نام کرتے رہے۔ پاکستان کے لیے طویل ترین کیریئر جاوید میانداد کا ہی تھا جو 20 سال 272 دن پر محیط رہا۔ اس دوران جاوید میانداد نے 124 ٹیسٹ میچز میں 52.57 کے اوسط سے8832 رنز بنائے جو اُس وقت پاکستان کے کسی بھی بیٹسمین کے سب سے زیادہ رنز تھے۔ ان میں 23 سنچریاں اور 43 نصف سنچریاں شامل تھیں اور ساتھ ہی 6 ڈبل سنچریاں بھی۔ ٹرپل سنچری بھی ہو جاتی اگر 1983ء میں عمران خان "وہ فیصلہ" نہ کرتے جسے سیاست میں آمد سے قبل خان صاحب کی زندگی کا سب سے بھیانک فیصلہ کہا جاتا ہے۔ یہ جنوری 1983ء تھا، بھارت کے خلاف حیدر آباد ٹیسٹ جاری تھا، جاوید میانداد 280 رنز پر کھیل رہے تھے کہ عمران خان نے اچانک اننگز ڈکلیئر کر دی۔ میانداد پھر کبھی ٹرپل سنچری کے اتنا قریب نہیں پہنچ پائے۔

بہرحال، ان کی دیگر یادگار ڈبل سنچریوں میں اوول ٹیسٹ 1987ء کی اننگز سب سے نمایاں ہے۔ پھر اپریل 1988ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف جارج ٹاؤن، گیانا ٹیسٹ کی وہ سنچری بھی یاد آتی ہے جس کی بدولت پاکستان ویسٹ انڈیز کو اس کی سرزمین پر ہرایا۔ یہ کتنی بڑی کامیابی تھی، اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ویسٹ انڈیز کی 10 سال میں ہوم گراؤنڈ پر پہلی شکست تھی۔

جاوید میانداد نہ صرف ٹیسٹ بلکہ ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے۔ آج بھی میانداد کے پاس مسلسل 9 اننگز میں نصف سنچریاں بنانے کا عالمی ریکارڈ ہے۔ پھر انٹرنیشنل کرکٹ میں بغیر کسی 'ڈک' کے مسلسل سب سے زیادہ اننگز کھیلنے والے پاکستانی بلے باز بھی میانداد ہی ہیں، جنہیں 112 اننگز تک کوئی صفر پر آؤٹ نہیں کر پایا۔

اسی دوران وہ ورلڈ کپ بھی آیا، جو آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ جاوید میانداد نے کَل چھ ورلڈ کپ کھیلے لیکن سب سے نمایاں 1992ء کا ورلڈ کپ ہی تھا۔ اس کا سب سے مشکل مقابلہ تھا نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل، جس میں جاوید میانداد نے 57 رنز کے ساتھ ناقابلِ شکست میدان سے لوٹے۔ یہی نہیں بلکہ فائنل میں بھی میانداد نے 58 رنز کی اہم اننگز کھیلی تھی۔

‏1996ء جاوید میانداد کے کیریئر کا آخری سال تھا۔ بھارت کے خلاف کوارٹر فائنل کی دل شکستہ ہار کے بعد دنیائے کرکٹ کو خیر باد کہہ گئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آج بھی پاکستان کرکٹ میں 'زندہ و جاوید' ہیں۔